Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر13

انسپکٹر صاحب۔۔۔میرے آدمی فیصل کو راولپنڈی لے جا رہے ہیں۔۔۔اور میں ذرا دوسری جانب والا ماحول دیکھ آؤں۔۔۔لڑکی والوں کا کیا حال ہے۔۔۔ وہ چبا چبا کر بولا۔۔۔
آپ نے بس کسی کو یہ نہیں بتانا کہ فیصل کہاں ہے۔۔۔ورنہ وہ بڈھا کام خراب کرے گا۔۔۔عمیر نے صبح سویرے فون پہ انسپکٹر کو اطلاع دی۔۔۔
او یاررر عمیر۔۔۔تو خود بھی پھنسے گا اور مجھے بھی پھنسائے گا۔۔۔
عمیر کا زوردار قہقہہ بلند ہوا۔۔۔
انسپکٹر صاحب انسپکٹر صاحب۔۔۔میرا آدمی آتا ہے تھوڑی دیر میں آپ کے " شکریہ" کے لیے۔۔۔ کیوں۔۔۔اب تو نہیں نہ خطرہ پھنس جانے کا۔۔۔
اس بار عمیر کے ساتھ انسپکٹر کا بھی قہقہہ بلند ہوا۔۔۔
ہاں بس آپ اس مرزے کو سنبھال رکھنا کہیں گیم خراب ہی نہ کر دے۔۔۔
___________________________
کہاں ہے فیصل؟ صبح پھر شعیب مرزا تھانے میں موجود تھے۔۔۔
اسے نا معلوم مقام پر بھیج دیا گیا ہے۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔
میں کیا کر سکتا ہوں مرزا صاحب۔۔۔اوپر سے آرڈر آیا ہے۔۔۔کیس ہی ایسا ہے۔۔۔مقتول کے خاندان والے کل سے بیس چکر لگا چکے ہیں اس لیے یہ ضروری تھا۔۔۔بلکہ وہ تو آپ کا گھر ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔۔۔
میرا بیٹا قاتل نہیں ہے۔۔۔مجھے یقین ہے۔۔۔شعیب مرزا نے ایک زوردار مکا میز پر مارا۔۔۔
انسپکٹر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔
ظاہر ہے بزرگو۔۔۔اب وہ کسی کو قتل کرنے سے پہلے آپ کی اجازت تھوڑی لے گا۔۔۔او بچہ ہے ہو جاتی ہیں چھوٹی چھوٹی باتیں۔۔۔اب ایک اچھے سے وکیل کا انتظام کریں باقی باتیں چھوڑیں۔۔۔
اور بتائیں چائے پیش کریں آپکو۔۔۔دیکھ لوں گا تم سب کو کمینو۔۔۔
وہ غصے میں بھرے ہوئے باہر نکل گئے۔۔۔انسپکٹر ہاتھ میں پنسل گھماتے ہوئے ہنس دیا۔۔۔
___________________________
ایمان کہاں ہے۔۔۔ایمااااان۔۔۔گھر میں ایک کھلبلی مچی تھی۔۔۔راتوں رات وہ گھر سے کہاں چلی گئی۔۔۔پورے گھر میں وہ کہیں نہیں تھی۔۔۔ سب گھر والوں کی حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔فون بھی اس کا گھر ہی پڑا تھا۔۔۔نہ اس کے بستر پر کوئی تحریر یا چٹھی تھی جس سے کچھ پتہ چلتا کہ وہ کہاں گئی ہے۔۔۔میں تھانے میں جا کر گمشدگی کی رپورٹ درج کراتا ہوں۔۔۔
نن۔۔۔نہیں۔۔۔رکیے۔۔۔جوان بچی ہے ۔۔۔بات نکل گئی تو۔۔۔لوگوں کا سامنا کیسے کریں گے تھوڑا انتظار کریں۔۔۔
لیکن یہ گئی کہاں۔۔۔
اب اتنی ڈھیل دیں گے تو یہ تو ہو گا۔۔۔عمیر دروازہ بند کر کے اندر داخل ہوتے ہوئے پر سکون لہجے میں بولا۔۔۔ وہ سب ایک منٹ کے لیے خاموش ہو گئے۔۔۔
کیا ہوا؟ سانپ سونگھ گیا۔۔۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا لڑکا ٹھیک نہیں ہے لیکن نہیں۔۔۔میری سنتا کون ہے۔۔۔مجھ پر شک کرنے سے آپ لوگوں کو فرصت ملے تب نا۔۔۔
کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔ ساجدہ بیگم بولیں۔۔۔
کہنے کی ہمت تو نہیں ہے لیکن حقیقت سے منہ کیا موڑنا۔۔۔
وہ فیصل کے ساتھ راتوں رات۔۔۔اس نے سر کے اشارے سے بات سمجھائی ۔۔۔ 
سلیم اختر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا۔۔۔اور ہاتھ میں پکڑا ہوا ایک کاغذ کا ٹکڑا ان کے سامنے کر دیا۔۔۔اس پر ایمان ہی کے رائٹنگ سٹائل میں لکھا تھا۔۔۔مجھے شادی فیصل سے ہی کرنی ہے۔۔۔اور میں کروں گی۔۔۔اور اپنی مرضی کی زندگی اپنی مرضی کی جگہ جا کر جیوں گی۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔
یہ صفحہ بھی اسی کی ڈائری سے پھاڑا گیا تھا۔۔۔
ایسے گھٹیا کاموں میں عمیر اپنا ثانی کہاں رکھتا تھا۔۔۔یہ باہر دروازے کے پاس پڑا ملا مجھے۔۔۔ شکر کریں میں نے ہی اٹھایا کسی اور نے نہیں۔۔۔
میں تو سوری کہنے آیا تھا اس دن کے لیے۔۔۔لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ دونوں پہلے سے ہی تیاری کیے بیٹھے ہیں۔۔۔
ایمان کے گھر والوں کے سر جھکے ہوئے تھے اور زبانیں گنگ تھیں۔۔۔
ایمان کا موبائل ہی دیکھ لیں۔۔۔ہو سکتا ہے کچھ پتہ چل جائے کہ وہ کہاں گئے ہیں۔۔۔عمیر کے یہ کہنے پر نور بھاگ کر ایمان کا فون لے آئی۔۔۔اس میں پہلا ہی میسج فیصل کا تھا اور وہ بھی رات بارہ بجے کا۔۔۔ اس نے کھولا تو لکھا تھا : 
"دروازہ کھولو ذرا۔۔۔میں باہر کھڑا ہوں"۔۔۔
نور کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر گر پڑا۔۔۔اس نے باقی سب کو مسیج کا بتایا تو عمیر سمیت سب نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔۔۔ ساجدہ بیگم تو گرنے کی قریب تھیں وہ تو نور نے سہارا دے کر انہیں کھڑا کیا۔۔۔
خیر خالو جان۔۔۔میں پولیس میں رپورٹ کرا آتا ہوں۔۔۔
رکو عمیر۔۔۔ پہلے مجھے فیصل سے پوچھنے دو وہ کہاں ہے۔۔۔
ہنہ۔۔۔خالو جان آپکو لگتا ہے آپ فون کر کے پوچھیں گے اور وہ بتا دے گا کہ میں ایمان کے ساتھ فلانی جگہ بیٹھا ہوں۔۔۔
اس کے گھر والے تو بتائیں گے کہ وہ کہاں گیا۔۔۔سلیم اختر دانت پیستے ہوئے بولے تو عمیر کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔۔۔
اس بارے میں تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔اب کیا کرے۔۔۔ خالو جان پہلے جو کام ضروری ہے وہ کر لیں۔۔۔
رک جاؤ عمیر۔۔۔انہوں نے اس کے سامنے شعیب مرزا کو فون کیا۔۔۔فون ان کی اہلیہ نے اٹھایا۔۔۔
جی بھائی صاحب۔۔۔السلام علیکم۔۔۔فیصل کہاں ہے۔۔۔انہوں نے سلام کا جواب بھی نہ دیا۔۔۔
عظمی بیگم یہ سن کر گھبرا گئیں کہ انہیں کیسے پتہ چلا۔۔۔ 
وہ کل دبئی چلا گیا ہے۔۔۔انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔اب وہ کیا بتاتیں کہ حوالات میں ہے۔۔۔
یہ سن کر سلیم اختر کو یقین ہو گیا کہ فیصل نے انہیں بھی اصل بات نہیں بتائی۔۔۔
ایک بات یاد رکھنا بھابھی جی۔۔۔ اگر وہ مجھے کہیں مل گیا تو اس کی لاش ہی گھر پہنچے گی۔۔۔ سلیم اختر چلا کر بولے۔۔۔
بھائی صاحب۔۔۔مقتول آپ کے کوئی قریبی تھے کیا۔۔۔
انہوں نے فون کاٹ دیا۔۔۔پاگل ہو گئی ہے اس کی ماں بھی۔۔۔
پہلے کہتی ہے وہ دبئی چلا گیا پھر پوچھ رہی ہے مقتول قریبی تھے۔۔۔۔میں کیا کہہ رہا ہوں اور وہ آگے سے کیا جواب دے رہی ہے۔۔۔
ارے خالو جان جوان بیٹا بنا بتائے یوں اچانک کہیں بھاگ جائے گا تو ماں کو صدمہ تو ہو گا۔۔۔جانے دیجیے۔۔۔عمیر نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ دل ہی دل میں وہ شکر کر رہا تھا کہ فیصل کی ماں نے سچ نہیں بتایا۔۔۔اب ہمیں خود ہی ڈھونڈنا ہو گا انہیں۔۔۔تم میری مدد کرو گے عمیر۔۔۔؟ انہوں نے منت کرتے ہوئے پوچھا تو عمیر نے جواباً کہا کیوں نہیں خالو جان۔۔۔آپ تو پوچھ کر شرمندہ کر رہے ہیں۔۔۔
___________________________
ہوش آنے پر ایمان نے دیکھا وہ ایک ایسے کمرے میں تھی جس میں سوائے ایک روشن دان کے کچھ نہ تھا۔۔۔پختہ فرش تھا لیکن مٹی سے اٹا ہوا تھا اور دیواریں کسی ڈھابے یا چھوٹے ہوٹل کے کچن کا نقشہ پیش کر رہی تھیں۔۔۔نہ کوئی پنکھا تھا نہ ہی کوئی لائٹ۔۔۔
اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔اس نے چیخنا چاہا تو آواز حلق میں ہی رہ گئی۔۔۔وہ فوراً دروازے کی طرف بھاگی لیکن دروازہ کی باہر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔۔۔اس نے دیکھا وہاں سوائے ایک گلاس پانی کے کچھ نہ پڑا تھا۔۔۔ اس کا گلا پہلے ہی خشک ہو رہا تھا۔۔۔
اس نے وہ سٹیل کا گلاس اٹھایا تو اس میں آدھے گلاس سے بھی کم پانی تھا۔۔۔اور وہ بھی جانے کتنے دن کا پڑا ہوا۔۔۔وہ پھر بھی غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اچانک اسے یاد آیا کہ رات فیصل کا میسج آیا تھا اور اس کے بعد۔۔۔
اس کے بدن پر کپکپی طاری ہو گئی۔۔۔مجھے یہاں کون لایا۔۔۔اور کیوں لایا گیا۔۔۔گھر والے۔۔۔یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔وہ طرح طرح کی باتیں سوچ رہی تھی اور اس کے دماغ میں ایک طوفان برپا تھا۔۔۔پھر اس کا ذہن ایک نقطہ پر آ کر رک گیا۔۔۔
"فیصل نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ"...
صبح سے شام ، شام سے رات ہونے کو آئی تھی۔۔۔
وہ ساری رات بیٹھی روتی رہی۔۔۔ "ان امیر لڑکوں پر اتنا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے"۔۔۔ زارا کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔۔
یا اللہ مجھے ایک بار معاف کر دیں پلیز۔۔۔پھر میں ایسی کوئی غلطی نہیں کروں گی۔۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔ساری رات وہ یوں ہی روتی رہی اور اللہ سے دعا کرتی رہی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔۔۔اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔۔۔وہ خوفزدہ ہو گئی اور اس نے دونوں ہاتھ آپس میں مضبوطی سے جکڑ لیے۔۔۔"یا اللہ خیر کرنا"۔۔۔۔اس کے منہ سے نکلا۔۔۔
کسی شخص نے اس کے سامنے ایک پلیٹ رکھ دی۔۔۔اس کے چہرے پر نقاب تھا۔۔۔وہ پلیٹ رکھ کر مڑ گیا۔۔۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اسے ایمان سے کوئی غرض نہیں ہے۔۔۔پلیٹ میں شاید گزشتہ رات کی روٹی پڑی تھی۔۔۔
کون ہو تم اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔۔۔ ایمان نے اس سے پوچھا۔۔۔
فیصل کو جانتی ہے تو؟۔۔۔ایمان خاموش رہی۔۔۔
بس۔۔۔اسی کے کہنے پر لایا گیا ہے تجھے یہاں۔۔۔
وہ کہاں ہے۔۔؟ 
آ جائے گا وہ بھی۔۔۔
دیکھو پلیز مجھے چھوڑ دو۔۔۔میں تمہاری منت کرتی ہوں۔۔۔خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو۔۔۔وہ اس کے پاؤں پڑ گئی۔۔۔اس شخص نے ایمان کو ایک زوردار دھکا دیا وہ کمرے کی دیوار سے جا ٹکرائی۔۔۔صد شکر کے اس کا سر نہیں لگا تھا۔۔۔لیکن اس کی ناک سے خون بہنے لگا۔۔۔چپ چاپ یہ روٹی کھا لو۔۔۔زیادہ بولیں نہ تو جان سے مار ڈالوں گا۔۔۔نقاب پوش نے بھاری بھرکم ہاتھ لہرایا تو ایمان نے چند لمحوں کے لیے اپنی سانس تک روک لی۔۔۔وہ شخص ایک بار پھر باہر سے کنڈی لگا کر چلا گیا۔۔۔ایمان کو اپنے ہوش و حواس جاتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔

   1
0 Comments